احساسِ کمتری

قلم کار: عبدالقیوم نوید

یونیورسٹی آف لورالائی

،Inferiority complexeاحساسِ محرومی،احساس کمتری، مایوسی،

ہماری معاشرے میں ایک ایسی بیماری کی تبلیغ دیا جارہا ہے جو سننے کے بعد فوراً وبا کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس سے معاشرے میں صرف بے روزگاری، بدعنوانی، کم خواندگی نہیں بلکہ خودکشی کرنا عروج پر ہوتی ہے اور جہالت کی تاج ہماری ذہنوں پر ہمیشہ کیلئے برقرار رہتی ہے۔ معاشرے میں عدلیہ کے ہوتے ہوئے پوری علاقے میں امن کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اور ہر جگہ، ہر گاؤں، ہر گھر اور ہر دل تواں پر خوف کی حکمرانی چلتی ہے۔ اس لاعلاج بیماری کو معاشرے میں نوے فیصد تعلیم یافتہ طبقہ فروغ دیتا ہے اور ننانوے فیصد معصوم بچے (طلباء) اس کی شکار ہوتے ہیں۔ جسے عام زبان میں احساسِ کمتری کہا جاتا ہے۔ 


احساسِ کمتری صرف خوف، ڈر، خطرہ، رعب، دھشت، دھمکی یا بے اعتمادی اور باور شکنی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ان تمام برائیوں کو بخوشی تسلیم کرنے کا اعلان ہے جس سے انسان واقف بھی نہیں ہیں۔ احساسِ کمتری میں مبتلا شخص اپنے آپ کو پوری معاشرے میں ہر کسی سے کم تر اور محروم سمجھتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض ہر ممکن کو ناممکن قرار دیتا ہے اور اپنے ذہنی قاموس سے لفظ ممکن کو ختم کرنے کیلئے بغاوت کا راستہ اختیار کرتاہے۔ اگر وقت پر انسان کی راہنمائی یا اسے کسی خاص انداز سے عمل کرنے یا اس کے جذبات اور احساسات کو نہیں ابھارا جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے لفظ ممکنات کا مبادلہ کروا دیتا ہے۔ اور بالآخر اس کے زندگی شام ہونے سے پہلے دم توڑ دیتی ہے۔


احساسِ کمتری کا جو کیفیت ہے وہ زندگی کے ان حالات سے تعلق رکھتی ہے جس سے کے سامنے انسان جھک جاتا ہے اور مزید لڑنے، سہنے اور برداشت کرنے کا قابل نہیں رہتا۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ میں نے اج سے پہلے کبھی یہ کوشش نہیں کی اور نہ ہی ہماری خاندان میں اس سے پہلے کسی نے ایسا کیا ہے یا اگر میں کوشش کرتا ہوں اور ناکام ہو جاتا ہوں تو کیا ہوگا؟ 

گھر اور گاؤں میں میرا کیا عزت رہ جائی گی اور لوگ کیا کہے گے؟ میں آپ کو بتارہا ہوں کہ لوگوں کا جو کام ہے انہیں کرنے دو، چپ چاپ انہیں نظر انداز کرتے جاؤ۔ اگر ہم ابھی یہ آغاز نہیں کرتے ہیں، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے! کہ بغیر کام کے ایمان مر جاتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ خیال لازماً ایجاد کرنا ہوگا کہ کوئی ہم سے آگے بڑھے۔ انسان کو ہر حال میں اٹل ہونا چاہیے، کسی سے اپنی شخصیت اور قابلیت کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایک کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنے کیلئے انسان کی تخیل میں یہ نہیں ہونا چاہیے کہ پلاں مجھ سے بہتر ہے، وہ مجھ سے خوبصورت ہے، وہ بہت امیر ہے، حتی کہ کلاس روم میں ایک طالب علم کو بالکل یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر میں جواب دینے کیلئے کھڑا ہوا اور غلط جواب دے دیا، یا نہیں دے سکا تو باقی طلباء میرا مذاق اڑائے گا، اگر میں کچھ پوچھنے یا شیر کرنے کیلئے اٹھ جاتا ہوں اور استاد مجھے نظر انداز کرے تو میری عزت نفس مجروح ہوجائی گی۔ کچھ نہیں ہوتا، لوگوں کی پاس بولنے کی علاوہ ہیں کیا؟


 پچھلے ہفتے ہماری اسلامیات کا کلاس ہور رہا تھا تو اس میں سٹرینتھ بہت زیادہ ہے، ہماری ساتھ بی ایڈ کی طلباء بھی اکھٹے بیٹھے ہیں۔ کلاس میں قرآن مجید کی خصوصیات پر ڈیسکشن ہورہی تھی۔ تو ہوا کچھ یوں کہ بی ایڈ کے سٹوڈنٹس نے مختلف قسم کے غیر ضروری سوالات اٹھائے جو کہ ہماری ڈیسکشن سے تعلق نہیں رکھتے تھے ایک سٹوڈنٹ نے پوچھا کہ سر! اگر کوئی نماز ادا نہیں کرتا یا روزہ نہیں رکھتا، تو کیا ہم جسمانی توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں؟ کوئی ملا اور غنی خان پر زور دے رہا تھا کہ اللہ رحمن اور رحیم ہے پھر خِضْرِ رَہْنُما ہمیں کیوں ڈراتے ہیں کہ اللہ جبار و قہار ہے؟ کوئی پوچھ رہا تھا کہ مدرسوں میں قرآن مجید کا ترجمہ پختو زبان میں کیوں نہیں کیا جاتا؟ میرے خیال سے کل کو یہی طلباء اس طرح کے سوالات بھی پوچھنا شروع کردیے گے کہ سر! قیوم کو ہم قیوم کیوں لکھتے ہیں؟ قیوم، کو ہم کیوم، قیم،کعیم اور قعوم بھی لکھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ یہ پوچھتے، کہ قرآن کو کیوں قرآن کا نام دیا گیا؟ قرآن کیوں عربی زبان میں نازل ہوئی؟ تو ہماری لیے قابل فیض و حسن سماعت ہوتے لیکن وہ کبھی بھی اس طرح کے سوالات نہیں اٹھائے گے کیونکہ وہ جس نظریے کو پرموٹ کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں ان کے باتوں سے واضح پتا چلتا ہے کہ وہ معاشرے میں صہیونیت اور نیشنلزم کا درس مارکس چاچو کے کہنے پہ عام کرنا چاہتے ہیں اور ہماری معاشرے میں یہ دیسی سرخے اور دانشور، کامریڈوں کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔ اس طرح کے سؤال پوچھنے پر استاد بھی ایکسائٹڈ سٹیٹ میں چلا جاتا ہے اور پھر وہاں سے اسلامیات کی کلاس مناظرے کا کلاس بن جاتاہے اور کلاس صرف دو تین لوگوں تک محدود رہتا ہے۔ 

خیر، پوری کلاس میں ایک بچہ بیت اللہ کے نام سے اُٹھتا ہے اور استاد سے عرض کرتا کہ ہماری کلاس آئندہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہوگا؟ کیوں بھائی! کیوں کہ وہ ہم سے بہت سینئر ہیں۔ میں انہیں التجاء کرنے کیلئے کلاس میں کھڑا رہا اور آخر میں سر نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ سارے سٹوڈنٹس بشمول وہ سینئر طلباء مجھ پر ہنسنے لگے اور میں عالم حیرانگی میں تزلزل کے ساتھ کھڑا رہا۔ 

کیا اب مجھے آئندہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے؟

 کیا پھر یہ طلباء مجھ پر ہنسنے لگے گے؟ 

  بالکل نہیں! میں بار بار پوچھوں گا۔ جو ہنستے ہیں انہیں ہنسنے دیتا ہوں۔ جو میرے راستے میں روکاوٹ بنتے ہیں انہیں اجازت دیتا ہوں، اور جو ہوا میں طائرے کے طرح اڑنے کی شوق رکھتے ہیں انہیں ذوق پورا کرنے کا موقع دیتا ہوں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ نفسیاتی جنگ کے دفاع کرنا، قوت برداشت، تصور، درک، جذبہ، علم اور احساس کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ 


یہاں پر تہ کی بات قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ ہم سب ایک منزل کی مسافر ہیں اور ہمیں منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے بہت سے تکالیف برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اپنی میشن یا ٹارگٹ کو پہنچنے کیلئے ہماری بینائی اتنی ضروری نہیں ہے جتنا کہ ٹرپ! یہیں تڑپ ہمیں منزل تک پہنچنا دیتی ہیں اور منزل پہنچے تک ہمیں کسی سہارے کے ضرورت نہیں کیونکہ سہارے انسان کو کمزور بنا دیتا ہے اور انسان کے تفکر کاہلی اور سستی کی طرف راغب کرتی ہے۔ ایک عالم دین سے کسی نے پوچھا کہ احساس کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟

تو اس نے کیا خوب جواب دیا کہ

"جب ہم ٹُھکرائے جاتے ہیں

رُلائے جاتے ہیں

 دل بے چین ہوتا ہے

 سانس تنگ ہونے لگتی ہے

  روح پر وحشت کا بسیرا ہونے لگتا ہے

  ہر رشتہ اپنی اصلیت دکھاتا ہے

  جب کچھ نظر نہیں آتا

  تب ہی تو ہم بھٹکے ہوؤں کو رَب نظر آتا ہے

  تب ہی احساس پیدا ہوتا ہے

  کہ اس رب کے سِوا ہمارا کون ہے؟؟؟"

  لیکن _إقرار باللسان و تصدیق بالقلب_ کے باوجود یہ سوال جنم لیتا ہے! کہ پھر ہم کیوں احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں؟ 

  رب کائنات نے پوری مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات اس لیے بنایا کیونکہ انسان سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ احساسِ برتری سے محروم رہتا ہے اور احساسِ کمتری کیلئے لقمہ اجل بن جاتا ہے۔ جب تک انسان فطرت کا وفادار نہیں بنتا تب تک وہ فلاح و بہبود سے محروم ہوتا رہے گا اور ناکامی دائمی طور پر اس کے مقدر بن جاتی ہے۔

  

اگر کوئی احساسِ کمتری کا شکار ہیں یا ہمت ہار گیا ہے؟ تو اسے موٹیویشنل ویڈیوز دیکھنے کے سوا دنیا کے سب سے چھوٹی مخلوق چھونٹی کی زندگی پر غور کرنا چاہیے۔ ہاں بالکل، ہمیں چیونٹیوں کے طریقوں سے سیکھنا چاہیے، اور ساتھ ہی عقلمند بننا چاہیے۔ چیونٹیاں رب کائنات کا وہ تھوڑی طاقت والی مخلوق ہیں، پھر بھی وہ فصل کی کٹائی میں اپنی خوراک جمع کرلیتی ہیں۔ چیونٹیوں کا کوئی کمانڈر ان چیف نہیں ہوتا، پھر بھی وہ وقت اور موسم کے اصولوں کی پابندی کرتی ہیں۔ ان کا کوئی نبی نہیں ہے، پھر بھی وہ اپنی زندگی کے لیے خدا کی مرضی اور منصوبہ پر عمل کرتے ہیں۔ چیونٹیاں بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے جسمانی وزن سے 20 گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہیں۔ چیونٹیاں بہت مختلف ہوتی ہیں اور ہمیشہ ثابت کرتی ہیں کہ ان کے پاس حکمت اور پیشن گوئی ہے۔ وہ فصل کی کٹائی کے وقت نو مہینے پہلے کھانا تیار کرتے ہیں۔ چھونٹیاں بہت عقلمند اور اپنی فطرت کے وفادار ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کون ہیں؛ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح کام کرنے کے لیے خود کو تحریک دینا ہے۔ چیونٹیوں کو کام شروع کرنے کا طریقہ بتانے کے لیے اجازت یا کمانڈر انچیف کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ان میں پہل کرنے کا وہ جذبہ ہوتا ہے جو اکثر لوگوں میں رب العالمین نے پوشیدہ رکھا ہے لیکن انہیں اپنے درپردہ صلاحیتوں کا پتا نہیں۔

اللّٰہ ہماری دلوں کو بھی یہ جذبہ بخش دے اور ہماری دلوں کو کلمہ توحید سے منور فرمائے۔